Imagine dining in a European capital where you do not know the local language. The waiter speaks little English, but by hook or by crook you manage to order something on the menu that you recognise, eat and pay for. Now picture instead that, after a hike goes wrong, you emerge, starving, in an Amazonian village. The people there have no idea what to make of you. You mime chewing sounds, which they mistake for your primitive tongue. When you raise your hands to signify surrender, they think you are launching an attack.
Communicating without a shared context is hard. For example, radioactive sites must be left undisturbed for tens of thousands of years; yet, given that the English of just 1,000 years ago is now unintelligible to most of its modern speakers, agencies have struggled to create warnings to accompany nuclear waste. Committees responsible for doing so have come up with everything from towering concrete spikes, to Edvard Munch’s “The Scream”, to plants genetically modified to turn an alarming blue. None is guaranteed to be future-proof.
Some of the same people who worked on these waste-site messages have also been part of an even bigger challenge: communicating with extraterrestrial life. This is the subject of “Extraterrestrial Languages”, a new book by Daniel Oberhaus, a journalist at Wired.
Nothing is known about how extraterrestrials might take in information. A pair of plaques sent in the early 1970s with Pioneer 10 and 11, two spacecraft, show nude human beings and a rough map to find Earth—rudimentary stuff, but even that assumes aliens can see. Since such craft have no more than an infinitesimal chance of being found, radio broadcasts from Earth, travelling at the speed of light, are more likely to make contact. But just as a terrestrial radio must be tuned to the right frequency, so must the interstellar kind. How would aliens happen upon the correct one? The Pioneer plaque gives a hint in the form of a basic diagram of a hydrogen atom, the magnetic polarity of which flips at regular intervals, with a frequency of 1,420MHz. Since hydrogen is the most abundant element in the universe, the hope is that this sketch might act as a sort of telephone number. | ذرا سوچیں کہ آپ یورپ کے کسی ایسے دارالخلافہ میں کھانا کھا رہے ہیں جہاں کی مقامی زبان سے آپ نا واقف ہیں۔ بیرا بھی تھوڑی بہت انگریزی بول سکتا ہے، لیکن کسی نہ کسی طرح آپ مینو سے ایک ایسی چیز آرڈر کر لیتے ہیں، کھاتے ہیں اور اس کی ادائیگی کر دیتے ہیں جس سے آپ واقف ہوں۔ اب اس کی بجائے یہ تصور کریں، کہ ہائیک کا منصوبہ خراب ہو جانے کے بعد، آپ بھوک پیاس کی حالت میں ایمیزون کے ایک گاؤں میں نکل آتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے۔ ایسے میں آپ چبانے کی آوازیں نکالتے ہیں، جنہیں غلط فہمی میں وہ آپ کی قدیم زبان سمجھ لیتے ہیں۔ جب آپ گھٹنے ٹیکنے کا اشارہ دینے کے لیے اپنے ہاتھ اٹھاتے ہیں، تو وہ سمجھتے ہیں کہ آپ حملہ کرنے والے ہیں۔ مشترکہ سیاق و سباق کے بغیر بات چیت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً، دسیوں ہزاروں سالوں تک تابکار شعاؤں کے حامل مقامات کو بنا دخل اندازی کیے چھوڑ دیا جانا چاہیئے؛ تاہم، اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ محض 1,000 سال پرانی انگریزی جدید زمانے میں اس کے زیادہ تر متکلمین کے لیے ناقابل فہم ہے، ایجنسیوں کو جوہری فضلے کے ساتھ گزارا کرنے کے حوالے سے انتباہات دینے میں مشکل کا سامنا رہا ہے۔ ایسی کمیٹیاں جو یہ سب کرنے کی ذمہ دار ہیں، سیمنٹ اور پتھر سے بنے کانٹوں سے لے کر، ایڈورڈ منچ کی "دی اسکریم"، اور جینیاتی طور پر ترمیم شدہ ایسے پودے تک لے کر آئی ہیں جو انتباہی نیلے رنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کے بھی متروک ہونے کی ضمانت نہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں سے کچھ جنہوں نے فضلاتی مقام کے پیغامات پر کام کیا ایک مزید بڑے چیلنج کا حصہ رہ چکے ہیں: ماورائی مخلوقات سے بات چیت کرنا۔ "ایکسٹرا ٹیرسٹریل لیگویجز" کا موضوع بھی یہی ہے، جوکہ ڈینیئل اوبرہاؤس(Daniel Oberhaus)، وائرڈ(Wired) کے ایک صحافی کی نئی کتاب ہے۔ اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ ماورائی مخلوقات کس طرح سے معلومات حاصل کرتی ہیں۔ سنہ 1970 کے اوائل میں، دو خلائی طیاروں، پاینیر 10 اور 11 کے ذریعے بھیجی گئی تختیوں کا ایک جوڑا، عریاں انسانوں اور بنیادی-زمینی اشیاء ڈھونڈنے کے لیے ایک ادھورا سا نقشہ ظاہر کرتا ہے، لیکن اس سے بھی یہی لگتا ہے کہ ماورائی مخلوقات دیکھ سکتی ہیں۔ چونکہ اس طرح کی کسی بھی سرگرمی کے پائے جانے کا امکان نہایت کم ہے، لہٰذا اس بات کا بہت حد تک امکان ہے، کہ زمین سے برق رفتاری سے سفر کرنے والی ریڈیو کی نشریات، رابطہ کر سکتی ہیں۔ لیکن جس طرح کسی ارضی ریڈیو کو درست فریکوئینسی پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ستاروں کے درمیان واقع حیات کے لیے بھی یہ لازم ہے۔ درست ہونے پر ماورائی مخلوقات کس طرح سے نمودار ہوں گی؟ پاینیر تختی ہائیڈروجن ایٹم کی ایک بنیادی ڈایاگرام کی صورت میں اشارہ دیتی ہے، جس کی مقناطیسی قطبیت، 1,420MHz فریکوئنسی کے ساتھ باقاعدہ وقفوں کے دوران پلٹ جاتی ہے۔ چونکہ ہائیڈروجن کائنات میں سب سے زیادہ پائے جانے والا عنصر ہے، لہذا امید یہی ہے کہ یہ خاکہ ایک ٹیلیفون نمبر کا کردار ادا کرے گا۔ |